از قلم 🖋️ محمد ثناء اللہ بن صفی الرحمن سلفی
! کھوج تالاش خبر، جنکپور دھام
آدمی کے اندر سے جب درد کی سیما ختم ہوجاتی ہے تو وہ بستر علالت پر ico میں چلا جاتا ہے یہی حال جماعت و جمعیت پر قلم اٹھانے والوں کا ہوا ہے کیونکہ جب مسیحا اور معالج ہی نہیں ہوگا تو مریض تقدیر کے لکھے کے انتظار میں بیڈ پر ہی گنے چنے دن گنتا رہ جائے گا ۔
آج ہر طرف خاموشی ہے ہر قلم اور ہر زبان خاموش ہے گویا کہ ہرکوئی عہدہ کی بانٹ پھانٹ میں حصّے کا منتظر ہے ۔ جب اہل حدیث کی کئی جمعیت کھل ہی گئیں تو مزید دو چند کی گنجائش نکل ہی آئے گی تاکہ ضلع وبستی وغیرہ کی تقسیم اقتدار میں کوئی فرد خالی نہ رہ جائے ۔
بہرحال اس وقت میرا یہ موضوع تو نہیں ہے مگر وقت وقت پر بستروں سے اٹھانے کے لئے لکھ دیا کرتا ہوں حالانکہ حاضری بہت دنوں کے بعد لگایا ہوں 🥰لیکن اس وقت میرا موضوع وہ حسرت کے منتشر خیالوں کی ترجمانی ہے جس کا بھوت اہل علم و قلم پر اس وقت بری طرح سوار ہوچکا ہے ۔
چند مہینوں سے دیکھ رہا ہوں شہرت کے افق پر نظر آنےکے لئے کچھ لوگ ایسی جگہ اپنی کوششیں ضائع کر رہے ہیں جسے ہوا میں تیر چلانا کہتے ہیں ۔ وہ ہے نیپال میں اردو روزنامہ کی کمی کا خمیازہ دہلی کے اخبار پر نکال رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر جھاپا کے کسی دس گھر والی بستی میں کوئی انجمن ہوتی ہے تو رپورٹ دہلی کے اخبار میں ، دھنوشا کے کسی گاؤں میں کسی مؤذن کو نزلہ ہوجائے تو رپورٹ دہلی کے اخبار میں ، روپندیہی کے کسی طالب علم کا ناظرہ مکمل ہوا تو رپورٹ دہلی کے اخبار میں ۔ بھائی یہ کیا ہے ؟ شہرت کی بھوک تمہیں مار ڈالے گی اور حاصل کچھ نہیں ہوگا اسی موقع پر کہا جاتاہے ,کوّا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا,
ہوتا تو یہ کہ لوگ اور جماعت کاٹھمنڈو یا مناسب جگہ پرمرکز کو اردو اخبار فراہم کرتے جس کے خریدار اور قارئین کثیر تعداد میں ہوتے اور اس کا کوئی تک بنتا ۔ لیکن جس رپورٹ کو دس آدمی اخبار خرید کر پڑھنے والے نہ ہوں اس کو بھی پرنٹ میڈیا اور نیپال کا ترجمان کہا جائے گا بہت افسوس کا مقام ہے ۔ بلکہ یہ محتاجی ہماری مقدر بن گئی ہے اس سے بہتر ہے کہ نہ اخبار ہو اور نہ کسی کی محتاجی ظاہر ہو بہت حد تک ٹھیک ہوگا ان شاءاللہ۔ کیا آپ دوسرے مسلک والے کو اس پیٹرن پر پاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس بھی تو اردو روزنامہ اخبار نہیں ہے ۔ یہ بدقسمتی اور دوسرے ملک کی ایسی غلامی دنیا بھر میں ہماری محتاجی کو چلّا چلّا کر بیان کی جارہی ہے ۔
چند لوگ گروپ بناکر اگر دن کو کہے رات تو کیا آپ بھی رات ہی کہیں گے ؟ اگر کہیں گے تو آپ آزاد نہیں بلکہ غلام ہیں ،اسی طرح کسی کو گزند پہنچائے بغیر حق بات لکھنا کیا حسد کی علامت ہوجاتی ہے ؟ اگر میری یہ تحریر موجودہ حالت کی ترجمانی نہیں کرتی ہے تو آپ مشورہ دیجئے پوسٹ واپس لے لوں گا اور اگر واقعہ کے مطابق ہے تو مزید دوسری صورتوں کی رہنمائی کریں جس سے کہ ہم اردو اخبار نکالنے کی پوزیشن میں آجائیں ۔ شکریہ 🌹 وجزاکم اللہ خیرا
प्रतिक्रिया