ہار جیت کا فلسفہ

از قلم : ابو ھلال

( ملک بھر میں مقامی انتظامیہ کا انتخاب ۱۳ / مئی کو ہونے جارہا ہے جس میں ہم کو بہ حیثیت مسلمان اخلاقی قدروں کا امین ہونا چاہئے لہذا جو ان اقدار کے حصول پر اپنا کردار پیش کرے گا وہ یقینا کبھی ہارے گا نہیں ! بلکہ وہ ہار کر بھی جیتا ہوا محسوس کرے گا’ اپنی نگاہ میں اور ملک و قوم کی نگاہ میں ! )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہار اور جیت اس کی ہوتی ہے جس قوم کے اندر تہذیب و معاشرت اور غیرت و حمیت کی رمق موجود ہوتی ہے ۔ ایسی معاشرت کے علمبردار تاریخ کے انمٹ نقوش ثبت کرتے رہتے ہیں تاہم آج کا دور اس غلامی اور فریب کاری کو اکثر ترجیح دیتا ہے جس کے تحت طبقاتی مفادات حاصل کیے جائیں’ جس فکر کے بعد ایسا جوش غالب آتا ہے کہ جہاں دین و ایمان بھی صرف استعمال ہوتا رہتا ہے ۔ پھر اس کی یہ کوتاہی ہار جیت کا نتیجہ پانے کے ساتھ ہی اپنے مخالف پر بغض کا متواتر حملہ کراتی ہے ۔ چونکہ اس کا نفس امّارہ ہار کو سہہ نہیں پاتا ہے اور اس سے زیادہ بزدلی جیتنے والے کی ہوتی ہے جو ہر شخص کو اپنی تائید کے غیر پر اسے آڑے ہاتھوں لیتا ہے ۔۔۔۔ حالانکہ ایک مسلمان تمام تر اپنی مذہبی رواداری کا امین ہوتا ہے اس کی اخلاقیات کاتقاضا ہے کہ وہ معاشرہ کے تابناک مستقبل اور فکری احیاء کی پاسداری کرے ۔ جس کے بعد اگرچہ کوئی دوسرا مذہب اور دوسری برادری کا شخص ہو اسے دھوکہ نہیں دے ۔ چونکہ یہ چناوی عمل کفر و اسلام کا معرکہ نہیں ہے جس میں جنگی چال کے تحت بعض ناگزیر فیصلے لینے ہوتے ہیں ۔ بلکہ یہ معاشرتی رواداری کا ایک پلیٹ فارم ہے جس میں اپنے مثبت کردار کو پیش کیا جاتا ہے ۔
مسلمانوں کے سامنے ہمیشہ اخلاقی قدروں کا لحاظ ہر جگہ ضروری مانا جاتا ہے ۔ مگر موجودہ پرچار کو دیکھیں جس میں عوام کا دل موہنے کے لئے مختلف حربے استعمال ہوتے ہیں ۔ بعض لوگ اور پارٹیاں لڑکیوں کا شو ڈانس کرواتی ہیں بلکہ اب تو جلوس وغیرہ میں عوام کی بعض عورتیں بھی ناچنے لگی ہیں ۔ لہذا یہاں بھی حالات کی رو میں ہم کو نہیں بہنا چاہئے ۔۔۔ اور یہ سب کب ہوگا جب آپ امیدوار اس لئے ہیں کہ عوام کی خدمت کریں گے نہ یہ کہ ہم ہر حال میں جیتیں گے چاہے ہمیں جو کرنا پڑے’ تو سمجھ جائیں آپ کے ہاتھ سے وہ معاشرہ نکل چکا ہے جس کی نمایندگی ایک مسلم امہ کے طور پر آپ نے کرنی تھی ۔
یہ دنیا امتحان کا گھر ہے اور ہار جیت کی یہ گھڑی اس کی سخت آزمائش کا نقطہء عروج ہے ۔ ٹھیک اسی جگہ مہذب اور غیر مہذب کا فرق نمایاں ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ خدمت خلق کی نیت رکھنے والا جیتنے کا کبھی بڑا حریص ہوتا ہے اور نہ ہارنے سے دل برداشتہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح عوام بھی جب ایسی ہی بیداری کا ثبوت دیتی ہے تو اس سرزمین پر کبھی فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے اور نہ فکری انتشار میں ملک تقسیم در تقسیم کی طرف بڑھتا ہے ۔
یقینا ہر دور میں اور ہر سرزمین میں فکری دانشوروں کی کمی نہیں ہوتی ہے ۔ ضرور ہے کہ وہ اس قوم اور اس ملت کو درست راہ پر گامزن رکھنے میں اپنا کردار نبھاتے ہیں تاکہ بغض و فریب کے نتیجے میں کوئی بڑا سانحہ رونما نہ ہو ۔ اگرچہ انہیں یعنی صاحب کردار کو اذیت اور دل آزاری کا سامنا کرنا پڑے ! یاد رہے ہمارے سامنے ایک ایسی نئی نسل کھڑی ہے جس کا دل اور سینہ تمام مکر و فریب اور ہر قسم کی غلاظت سے پاک ہے کیا ہم اپنے چھوٹے اور ہلکے مفادات کے لئے ان کا دل اور سینہ ناپاک کردیں گے ؟ نہیں’ نہیں ! ہمیں تو ہر حلقہ اور تمام خطّے کے لئے سوچنا چاہئے اور پوری دوراندیشی کا ثبوت دینا چاہئے ۔ قوم کو آج ایک صاحب بصیرت اور صاحب عزیمت کی ضرورت ہے جو اپنے لئے نہیں بلکہ ملت کے درد میں ڈوب کر اپنی اعلی ظرفی کا وہ ثبوت دے ۔ اور بیشک وہ صاحب بصیرت آپ ہوں گے جو اپنے اپنے علاقہ کو ملی شعور سے ہم آہنگ کردیں گے ۔ ان شاء اللہ

प्रतिक्रिया

सम्बन्धित समाचार