از قلم : ابو ھلال
( مقامی چناؤ کے اس دنگل میں ہر قسم کے جوشیلے ، ناعاقبت اندیش اور سطحیت کے علمبردار لوگ اچھل کود کرنے والے ہوتے ہیں جس کے اثرات اور نتائج برے اور گہرے ہوسکتے ہیں لہذا ایسے موقعے پر آپ کی ذمہ داری ، بردباری اور مآل اندیشی کی سخت ضرورت ہے’ پھر تو اس کا احساس پیدا کیجئے !)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عوام تک جاتے جاتے سبھی نیتا سچی تصویر اور سچے ہمدرد بن جاتے ہیں ۔ عوام کے درد اور کرب کو سمجھنے کے لئے نیتا جی چناؤ کے دنوں میں یقینا آج تڑپ تڑپ جاتے ہیں ۔ لیکن انسانی کمزوری اور عارضی خودغرضی کے باعث یہی انسان اپنی ساکھ اکثر کمزور کرلیتا ہے ۔۔۔ عوام کے حقیقی کرب میں تعلیم ، صحت اور شہری ترقی کے علی الرغم اس کے لئے امن وامان اور عزت نفس کا احترام سب سے اہم ہوتا ہے ۔ جس کا دوسرا مطلب تازہ انصاف کی فراہمی ہے ۔ لیکن جمہوری سسٹم میں یہی چیز نہیں ہوتی ہے کیونکہ اکثر نیتا ووٹ کی طاقت پانے کے لئے ظالموں کے دست نگر ہوجاتے ہیں اور ان کے اشاروں پر غریبوں اور مجبوروں کو بجائے انصاف کے’ استحصال کرتے ہیں ۔ یہ حال پوری دنیا کا ہے ۔ ہاں ! کوئی اللہ کا بندہ اپنے اصول پر جم جائے تو بڑی بڑی آزمائشوں کا وہ نیتا بھی شکار ہوجاتا ہے بلکہ ممکن ہے آنے والے چناؤ میں اپنی ضمانت بھی گنوالیں ۔ لہذا مسلمانوں کا چناؤ جیتنا کمال نہیں ہے بلکہ اسے نبھانا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔
ابھی چند دنوں پہلے “مسلم آیوگ جاؤلا کھیل کاٹھمنڈو” نے حکومت کو یاد دلایا ہے کہ سفارت کاری اور دوسرے اعلی عہدوں کی تقرری میں حکومت نے مسلمانوں کو نظرانداز کردیا ہے ۔۔۔ لیکن کیا ان اعلی عہدوں پر فائز ماضی کے کسی مسلم آفیسر نے مسلمانوں میں غیرمعمولی اصلاحات ، وہ ترقیاں جسے یاد رکھا جائے ، کوئی جامعہ ، کوئی اسپتال ، کوئی بڑا اخبار یا کوئی بڑا مدرسہ قائم کیا ہے ؟
ان مسائل اور عدم وسائل کو ہم نے اس لئے گنایا ہے تاکہ آپ یاد رکھیں کیونکہ ہمارے نیتا آج ہی آپ کی کچھ سنیں گے اور کچھ سمجھیں گے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ نیتاؤں کی مجبوری کا حل بھی آپ نے ہی تلاشنا ہے ۔ پس حل کی صورت یہ ہے کہ جو نیتا اپنے گرد موالیوں اور غنڈوں کی فوج تیار کریں آپ پر زبردستی کی حکومت کرنے لگے پھر تو ان سے کنارہ ہوجائیں ۔ ظاہر ہے رشتہ داری مانع ہوگی ، پرانے تعلقات رکاوٹ ہوں گے ، ذاتی مفاد دہائی دے گا اور کسی خوف کا لرزہ طاری رہے گا ‘ لہذا ان سبھی زحمتوں کا سامنا کرتے ہوئے اچھائی بھلائی کو اَستھاپت کیجئے ۔
یقینا دنیا کی اکثریت جن راہوں پر گامزن ہے اور مسلمانوں نے جسے اضطراری طور پر قبول کرلیا ہے اب تک تو وہ نظریہ اور وہ سسٹم معاشرے کا حصہ بن چکا ہے جسے اضطراری کہنا بھی زیب نہیں دیتا ہے پھر آپ کا علم بغاوت بلند کرنا نقصان کا باعث ہوسکتا ہے اسی لئے اپنی استعداد و استطاعت بھر خیر کی کوششوں کا سلسلہ بھی بند نہیں کرنا چاہئے ۔
دوسری طرف اس سسٹم اور اقتدار میں یقین رکھنے والے بعض لوگ تشدد کے شکار ہوتے ہیں اور وہ اپنے امیدوار کو سب سے افضل اور برتر کہنے کے ساتھ مخالف امیدوار اور اس کے حمایتی کو منافق اور دین سے نکلا ہوا گمراہ تک کہتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ گو اسے نظر نہ آئے مگر اس کا انجام ملت کی تباہی پر منتج ہوتا ہے !!
प्रतिक्रिया