اللہ کے مہمانوں کی عظیم المثال خدمت

 

تحریر۔ مجیب الدین ابوالکلام مدنی

حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے جو ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ شوال کے مہینہ سے ہی اشہر حج کا آغاز ہو جاتا ہے اور ذو القعدہ کے ابتدائی عشرہ سے ہی دنیا کے مختلف خطوں اور ملکوں سے عازمینِ حج فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین کے لیے رخت سفر باندھنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ 20 سے 25 لاکھ کی تعداد میں حجاج کرام ایام حج میں مکۃ المکرمۃ پہنچ جاتے ہیں۔ عالمی وبا کورونا کے انتشار سے پہلے تک جتنی بڑی تعداد میں پورے امن و سکون کے ساتھ فریضۂ حج کی ادائیگی مسلمان کرتے رہے، پوری اسلامی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آخر ایسا کیوں کر ممکن ہوسکا؟ اتنی بڑی کامیابی کا سہرا کس کے سر جاتا ہے؟ اس عظیم الشان اور عدیم المثال کارنامے کے پیچھے کس کی کاوشیں ہیں؟ ان حجاج کی خدمت کے لیے اپنے خزانے کا دہانہ کس نے کھول رکھا ہے؟ حرمین شریفین اور مشاعر مقدسہ کی بڑے پیمانے پر توسیع اور تعمیر و ترقی کس کی مرہون منت ہے؟
تعصب و حسد اور بغض و نفرت کی عینک نکال کر غیر جانبداری کے ساتھ اگر مذکورہ امور پر ایک سلیم الطبع انسان غور کرے گا تو وہ یکلخت پکار اٹھے گا کہ یقیناً سعودی حکومت کی اللہ کے مہمانوں کی خدمت عدیم المثال ہے۔
محترم قارئین!
سعودی حکومت کے قیام سے پہلے حج اور حجاج کی تاریخ کو پڑھیں تب آپ کو صحیح طور پر اندازہ ہوگا کہ آج کل حجاج کتنے پرامن ماحول میں تمام تر سہولیات کے ساتھ فریضۂ حج کی ادائیگی کررہے ہیں۔ پہلے حجاج کرام کے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے، غربت و جہالت عام تھی، بد امنی، قتل، لوٹ مار، ظلم و جارحیت سے لوگوں کا بُرا حال تھا۔ تصور کیجیے ہمارے آباء و اجداد نے اس فریضے کی ادائیگی میں کتنی دشواریوں کا سامنا کیا ہوگا جب کہ اس زمانے میں لوگ بڑے ہی محدود تعداد میں حج کیا کرتے تھے۔
محترم قارئین!
شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمان آل سعود/ رحمہ اللہ نے سعودی حکومت کی بنیاد خالص کتاب و سنت کی تعلیمات پر رکھی۔ توحید خالص، عقیدۂ صحیحہ اور منہج سلف صالح کی ترویج اور تمام معاملات میں کتاب و سنت کی بالادستی اس ملک کا طرۂ امتیاز ہے۔ چنانچہ اپنے قیام کے روز اول سے ہی یہ ملک ترقیوں کی راہ پر گامزن اور رواں دواں ہے۔ اور چند ہی سالوں میں ملِک سعود بن عبدالعزيز کا عہد آتے آتے سعودی عرب دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی فہرست سے نکل کر خوش حال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگیا۔ اور خوش حالی، تحفظ اور امن و امان کا گہوارہ بن گیا، اس حکومت نے علم توحید بلند کیا اور بدعات و خرافات اور کفر و شرک کے تمام مراکز کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اسلام کی سچی تعلیمات کو پوری دنیا کے اندر عام کیا اور نہ صرف یہ کہ اس حکومت نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی ہے بلکہ پوری انسانیت کی خدمت میں ہمیشہ اس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، دنیا کے اندر جہاں کہیں بھی ناگہانی آفت و مصیبت آتی ہے سعودی حکومت کا عملہ وہاں امدادی ساز و سامان کے ساتھ پہنچ جاتا ہے۔
جب سے نجد و حجاز کا علاقہ اس حکومت کے زیر نگیں آیا اسی وقت سے اس حکومت نے حرمین شریفین کی توسیع و ترقی اور اس کے انتظام و انصرام کے لیے اپنے خزانے کا دہانہ کھول رکھا ہے۔ اور ہر دور میں حرمین شریفین کی توسیع اور تعمیر و ترقی کے عظیم الشان منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل کا استعمال کرتی آئی ہے اور آج بھی یہ عمل پورے زور و شور کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
یہ حکومت حج کے انتظامات اور حجاج بیت اللہ کو ہر ممکن سہولیات پہنچانے کے لیے اربوں ریال سالانہ خرچ کرتی ہے۔ حج کے لیے ان کے یہاں باقاعدہ ایک مستقل وزارت ہے جس کا سالانہ ایک خطیر بجٹ مختص کیا جاتا ہے، علاوہ ازیں اسلامی امور کی وزارت و وزارتِ داخلہ اور دیگر حکومتی ادارے بھی پورے طور پر اپنا کردار نبھاتے ہوئے حجاج کی خدمت میں ایک خطیر. رقم خرچ کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ الزام لگانا کہ سعودی حکومت حج سے اربوں ریال کی کمائی کرتی ہے انتہائی بے بنیاد اور سراسر غلط دعویٰ ہے۔ سعودی حکومت اور اُس ملک کا بچہ بچہ اللہ کے مہمانوں کی خدمت کو اپنے لیے باعثِ صد افتخار و اعزاز سمجھتا ہے اور اسے اپنی ملی و مذہبی ذمہ داری سمجھ کر احسن طریقے پر اسے انجام دیتا ہے۔
آج دنیا حیران و ششدر ہے کہ سعودی انتظامیہ 164 سے زائد ممالک اور مختلف تہذیب و ثقافت کے پروردہ اور مختلف زبانوں کے بولنے والے اتنے بڑے مجمعے کو کیسے کنٹرول کرتی ہے۔ کسی بھی پولیس اہلکار کے ہاتھ میں ہتھیار کے نام پر ایک ڈنڈا تک نہیں ہوتا ہے اس کے باوجود وہ صرف اپنی میٹھی و شیریں زبان، اعلٰی اخلاق و بلند کردار سے دنیا کے سب سے بڑے اس انسانی مجمع کو نہ صرف کنٹرول کرتی ہے بلکہ عورتوں، بزرگوں، مریضوں اور معذوروں کی ایسی مثالی و قابل ستائش خدمت کرتی ہے کہ دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان کے دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔
جدہ یا مدینہ ایئرپورٹ پر حاجی کے اترتے ہی سعودی حکومت کے نمائندے اس حاجی کا پُرتپاک استقبال کرتے ہیں اور روز اول سے ہی اسے ہر ممکن سہولت فراہم کرنے میں لگ جاتے ہیں ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی حاجی کو کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچنے پائے۔ حاجی اگر راستہ بھٹک جائے تو سرکاری عملہ اسے اس کی منزل تک پہنچا کے آتا ہے اگر بیمار پڑ جائے تو صرف ایک کال پر فوراً تمام تر جدید سہولیات سے لیس طبی عملے ساتھ ایمبولینس پہنچتی ہے اور اسے بہتر سے بہتر علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ ہر حاجی کا علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے اسے کسی بھی طرح کی جسمانی پریشانی اگر لاحق ہوجائے اور علاج یا بڑے سے بڑے آپریشن کی ضرورت پڑ جائے تو حکومت کی جانب سے ماہر ترین سرجن ڈاکٹر سے آپریشن و علاج کا انتظام بالکل مفت کیا جاتا ہے اور حاجی سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں لی جاتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر حاجی کو قرآن کریم کا دیدہ زیب نسخہ اور اس کی اپنی زبان میں عقیدہ و مسائل کے کتابچے بھی حکومت کی جانب سے بطور تحفہ عنایت کیے جاتے ہیں نیز آب زم زم کو زیادہ سے زیادہ وافر مقدار میں پہنچانے کی اعلی سہولت میسر ہے۔
حجاج کرام و معتمرين کی خدمت و سہولت کی تعریف نہ صرف یہ کہ سعودی عرب کے حمایت یافتہ لوگ کرتے ہیں بلکہ سعودی حکومت کے مخالفین و معاندین بھی ان کی اعلیٰ انتظامی سہولیات کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتے ہیں۔
اس عظیم خدمت پر سعودی حکومت اور اس کے فرماں روا یقیناً مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اس مناسبت سے ہم سعودی حکومت اور اس کے فرماں روا خاص طور سے شاہ سلمان بن عبدالعزيز آل سعود -ایدہ اللہ بنصرہ- اور آپ کے سچے جانشین شہزادہ محمد بن سلمان-حفظہ اللہ- اور ان کے تمام معاونین و مساعدین اور کارکنان کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العالمین اس عظیم اسلامی سلطنت کو تا قیامت قائم و دائم رکھے، اسے حاسدوں کی حسد اور تخریب کاروں کی تخریب سے محفوظ و مامون رکھے، اس کے حکمرانوں کو مزید اسلام اور مسلمانوں کے خدمت کی توفیق بخشے اور جو وہ خدمات انجام دے رہے ہیں اسے قبول فرمائے۔ آمین!

प्रतिक्रिया

सम्बन्धित समाचार